Orhan

Add To collaction

چاند دیکھکر

afsanay.c
" بھئی بہو۔۔۔! میرا خیال ہے کہ انوشے اپنے ماں باپکے ساتھ آ جاۓ۔۔۔ یہاں کا ماحول دیکھ لے تو پھر بات اگے چلائیں' اتنی جلد بازی نہ کریں اور پھر ابھی ہانیہ کے رشتے کی ہاں بھی کرنی ہے پہلے اس فرض سے فارغ ہو جائیں۔" دادی نے سحری کے بعد بات چھیڑی۔

وہ جو برتن سمیٹ رہی تھی ' ایوب کی طرف دیکھنے لگی۔ فریدون نے اس کی سمت دیکھا ' شاید وہ اس کی چوری پکڑنا چاہ رہا تھا۔ وہ برتن لے کر اندر بڑھ گئی۔

" کیا مطلب اماں؟ آپ نے انکار نہیں کیا شازیہ کو؟"

" نہیں۔۔۔! اور ویسے بھی ایوب کی عمر ہے اب شادی کی' ماشااللہ سے اکیس برس کا ہو گیا ہے اور کتنی دیر کرو گی؟"

" وہ تو ٹھیک ہے اماں مگر۔۔۔۔ اور پھر یہ صبا۔۔۔۔ اس کے بارے میں کیا سوچا ہے انہوں نے؟" تائی کی بات پر اس کے قدم وہیں رک گئے ۔ ایوب کی نظریں اٹھیں۔

" بھئی بہو! صبا کی حقیقت سے اپنے پراۓ سب واقف ہیں۔۔۔۔ کسی اچھے گھرانے سے تو رشتہ آنے سے رہا۔۔۔ ہاں اگر آ بھی گیا تو ہم سب کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔۔ آفتاب تو چاہتا ہی نہیں تھا بچہ گود لینا' یہ تو اللہ بخشے بہو کو۔۔۔ اپنی محرومی دور کرنے کے لیے میاں سے لڑ جھگڑ کر یہ بچی لے آئی۔۔۔۔خود اللہ کو پیاری ہوئی تو آفتاب کی عمر ہی کیا تھی ' اس نے شازیہ سے بیاہ کیا تو خدا نے اپنی بچی دے دی۔۔۔ ہمارا جی نہ چاہا صبا کو دوبارہ یتیم خانے بھیجنے پر ' کیا کرتے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔ اب اکیلے آفتاب کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے۔" دادی جو کہہ رہی تھیں سچ تھا' وہ ایک پل میں کتنی فالتو سی ہو گئی تھی۔ ایوب کی انکھوں میں کیا کچھ نہیں تھا۔ وہ اٹھ کر چلا گیا۔

" میں نے ایوب سے بھی بات کی ہے' کہتا ہے پہلے چاچو' چاچی اور انوشے کو آنے تو دیں۔" دادی کی بات پر فریدون کی نظریں ایک بار پھر اس کی طرف اٹھی تھیں' وہ دوبارہ کچن میں روپوش ہو گئی۔

شام کا وقت تھا ' اج افطاری میں اہتمام معمول سے کچھ زیادہ تھا۔ ہانیہ اور آفاق کا رشتہ پکا ہو رہا تھا' نکاح یا منگنی کا فیصلہ عید کے بعد پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ دادی کا خیال تھا کہ تب تک آفتاب اور شازیہ بھی آ جائیں گے اور ایوب اور انوشے کے سلسلے میں بھی وہ کوئی فیصلہ کر لیں گی تو دونوں رسمیں اکٹھی ہو جائیں گی۔

وہ لان کے گھسے ہوۓ بد رنگ جوڑے میں ملبوس' بالوں کا جوڑا بناۓ کچن میں سب کی پسند کے مشروبات بنانے میں مصروف تھی جب ایوب گھر میں داخل ہوا۔ کچن کی کھڑکی کھلی تھی۔ چپس کے دھلے دھلاۓ فرش پر کرسیاں ترتیب سے بچھی تھیں۔ میز پر تازہ پھولوں کا گلدستہ مہک رہا تھا۔

یہ اس کا روز کا معمول تھا وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے کام میں مگن تھی۔ ایوب نے کبھی اسے ڈھنگ کے کپڑوں میں نہیں دیکھا تھا' ہمیشہ ہانیہ اور زہرا آپا اس کے لیے اپنے استعمال شدہ کپڑوں کا شاپر اٹھا لائی تھیں۔

ہانیہ اور آفاق کا رشتہ پکا ہو گیا ' افطاری کے بعد دعا کر دی گئی اور رسم عید کے بعد رکھی گئی۔ یہ خبر جب باہر والوں کو سنائی گئی تو انہوں نے ایوب اور انوشے کی بات پھر سے چھیڑ دی۔

   0
0 Comments